کیا اکیسویں صدی میں ہم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں؟

کیا اکیسویں صدی میں ہم صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں؟

 انسان کی پہچان اس کے طرزِ زندگی سے ہوتی ہے۔ آپ کیسے بولتے ہیں، لوگوں سے کیسے پیش آتے ہیں،آپ کس قسم کے افراد کے حامی ہیں یہ سب آپ کا تعارف ہے۔ اور یہ سب آپ کی پہچان بناتا ہے۔ موجودہ دور میں پاکستان کو کچھ ایسے عناصر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا تعارف تشدد اور شدت پسندی سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنی اس ذہنی معذوری کو قابل فخر جانتے ہیں اور دوسروں پر بھی وہی نظریا مسلط کرنے کے حامی ہیں۔ اگر کسی طرح سے وہ اس میں ناکام ہو بھی جائیں تو بات مرنے مرانے پر آ ٹھہرتی ہے۔ 

                 -کیا یہ رویا اچانک سے نمودار ہوا ہے؟

 جی نہیں۔ انسانی ذہنوں کو ایک ساکن ڈھانچے میں گھڑنے کے لئے کئی دہائیاں درکار ہیں۔ یہ ذہنیت بیسویں صدی کی پیداوار ہے جہاں زرا زرا سی بات کو ایک انتہائی حساس عقیدے سے جوڑ کر لوگوں کے لئے نہایت ہی خطرناک نتائج نکالے گئے۔ 

جہاں آئین میں انتہا پسندی کو متعارف کروایا گیا۔ حب الوطنی کو فقط ایک عقیدے پر ایمان کا محتاج بنا دیا گیا۔ وہاں سے نفرتوں کا بیج بویا گیا۔ جس کا پھل آج ان سخت رویوں کی صورت مل رہا ہے۔ جسے کھا بھی نہیں سکتے کہ اس کے کڑوے ہونے کا پورا یقین ہے!

 -کیا یہ رویے کسی انقلاب سے بدلے جاسکتے ہیں؟

 جس آگ کو لگانے کے لئے کچھ عناصر نے کئی دہائیاں لگا دیں، اس آگ کو بجھانے کے لئے اتنا ہی وقت درکار ہے۔ انسانی رویے دنوں میں نہیں سالوں میں بدلے جاتے ہیں۔ صبر کرنا، کسی کی رائے سے اختلاف ہوتے ہوئے بھی تسلی سے سننا، مخالفین سے مخالفت کی جگہ نفرت نہ کرنا، پختا اسباب پر اپنی رائے تبدیل کر لینا یہ ایک طرز زندگی ہے اور زندگی کا طریقا سیکھنے کے لئے ایک مکمل زندگی کی ضرورت ہیں۔ 

 وہ زندگی کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے؟

 علم وہ واحد دوا ہے جس سے انسانی ذہنوں میں لگے صدیوں پرانے دیمک سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سوچیں اور غور کریں۔ چیزوں کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سہی اور غلط سامنے نظر آئیگا۔ غیر انسانی رویے اور ان میں بے صبری کے خاتمے کا واحد حل یہ ہے کہ علمی اور کتابی حل کی طرف آئیں۔ 

اگر کوئی مضبوط دلیل دے تو اپنی رائے کو تبدیل کرنے میں دیر نہ کریں! کیوں کہ یہی راستہ امن کی طرف جاتا ہے۔ جس کی اس وطن کو اشد ضرورت ہے۔۔

 مستجاب زھرہ

   

Have we have lost patience in the 21st century?

Man is identified by his lifestyle. How he speaks, how he treats people, what kind of people he supports. And this makes his identity. In the current era, Pakistan is facing some elements that are characterized by violence and extremism. These people are proud of their mental disability and are in favor of imposing the same ideology on others. Even if they somehow fail, they will die

Did this vision appear suddenly?

Not at all. It took decades for human minds to form a static structure. This mentality is a product of the twentieth century, where the slightest connection with a very sensitive belief has led to very dangerous consequences for the people. Extremism was introduced in the state. Patriotism was made to require in the faith, but this failed. From there the seeds of hatred were sown. The result of which is today taking the form of these harsh attitudes. You can't even ignore it because it is sure to be bitter!

Can these attitudes be changed by a revolution?

The fire that some elements took decades to put out is the same amount of time it takes to put out. Human behavior changes over the years, not days. Patience, listening calmly even when disagreeing with someone's opinion, not hating opponents instead of opposing them, changing one's opinion for solid reasons is a way of life and a whole life is needed to learn the way of life

How can that life be achieved?

Knowledge is the only medicine that can get rid of the centuries-old termites in the human mind. Think and ponder. Try to understand things from different angles. True and false will appear in front. The only solution to end inhumane behavior and impatience is to come to a scientific and biblical solution.

If someone gives a strong argument, don't delay in changing your opinion! Because that is the way to peace. Which this country is in dire need of.

AUTHOR: MUSTAJAB ZAHRA

TRANSLATOR: KHUNSHA TARIQ


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Gender inequality in Pakistan: Harbinger of Doom